کیا کیا تو نے اور تو کیا چاہتا تھا
محبت تھی آرزو اور جینا چاہتا تھا
گلیاں گھوم کی اس شہر کی میں
خود کو خود سے جدا چاہتا تھا
میں وہ سب ہی تو ٹہرے ہیں کافر
لگتا ہے تو خدا بننا چاہتا تھا
خواہش تھی خود کو برباد کرنے کی
پر یہ کام تو میں تنہا چاہتا تھا
جو ہو آرزو ، جہاں تم چاہو
میرا نہ سوچنا یہ کہنا چاہتا تھا
توڑ دونگا میں اک اک محل پر
اس میں ایسا کیا یہ جاننا چاہتا تھا
ازل سے رہی عداوت اس رسم سے
جینا شرط تھی اور میں مرنا چاہتا تھا
اوروں کے وقت سی کے لب میں
اپنے وقت صالح ایک مجمع چاہتا تھا