چاہتوں کے یقیں پہ رک جاتے
ہم مسافر کہیں پہ رک جاتے
دیکھ لیتے جو میری تشبہ لبی
سارے دریا یہیں پہ رک جاتے
عمر بھر ہم تری معیت میں
ہاں پہ چلتے نہیں پہ رک جاتے
پم کسی اک کے ہم سفر بنتے
ہم کسی اک حسیں پہ رک جاتے
یہ نظر باز بھیڑ میں چلتے
ایمائے مہ جبیں پہ رک جاتے
چاہتوں کے فلک سے اترتے ہوئے
وشمہ تیری زمیں پہ رک جاتے