دوریوں کا خیال چبھتا ہے
دل میں حرفِ ملال چبھتا ہے
کل تھا ٹھنڈک وہ میری آنکھوں کی
آج تیرا جمال چبھتا ہے
دن کو تنہائیاں ڈسیں پل پل
شب کو دکھ کا ہلال چبھتا ہے
میں رہوں تیری یاد سے غافل
دل کو یہی خیال چبھتا ہے
موت دینا عروج میں مولا
مجھ کو وقتِ زوال چبھتا ہے
اتنا عادی ہوا ہوں فرقت کا
خواب میں بھی وصال چبھتا ہے