چلا اُس شہر سے اِس شہر کا مہمان بنکر رہ گیا
حقیقت یہ ہے کم ظرف سا انسان بنکر رہ گیا
ہر وقت کو تراشا سب بھر تیری یادوں میں
پر خواب کے پیالو مے آسیر بنکر رہ گیا
اس جدّو جہد میں سرحد کو پار کر گیا
پھر بھی میری محبّت کشمیر بن کر رہ گیا
اعتراض نہ کرے زمانہ کسی کے چاہت میں
تبھی تو تاج محبّت کا زنجیر بن کر رہ گیا