چلمن خوشبوء کا خیال کر کہ آندھی نہ آئے اتفاق سے
عشق کے انتم میں لوگ اجڑتے ہیں اک مذاق سے
مجھے کچھ کہنے کو وہ صدیوں سے ہونٹ سیئے بیٹھی
غلاظت کے غلام کو کہاں فرصت ملی فراق سے
گرائے تھے غم اپنے وہ آنسو سمجھ کر پیء گئی
کب سے تو پیاسی ہے یہ کس نے پوچھا خاک سے
منظر پر نقش رکھو تو غیب دانی کی ضرورت کیا
بے امتیاز سفر تھا نہیں پوچھنا پڑا اپنے آپ سے
اک امید کی بام پر اُن کو بھٹکاتی رہی سرد ہوائیں
میرے گھر کے دیئے بھی اب ڈرنے لگے ہیں رات سے