چلو آؤ نہ پھر اک سوال کریں
چلو آؤ نہ پھر اک کمال کریں
ہم نے سنا ہے جواب دیتا ہے
وہ فطرت کے ہر قرینے سے
وہ جس کی آنکھوں سے فیض جاری ہے
وہ جو بادہ و جام رکھتا ہے
وہ جو رندوں سے کام رکھتا ہے
وہ جس کے ہونٹوں کی سرخ مستی نے
عارض گل کو سیراب کر ڈالا
پھول تھا وہ گلاب کر ڈالا
وہ جس کی آنکھوں کی سحر سازی نے
زندگی کو چراغ کر ڈالا
بے بسی کو عذاب کر ڈالا
وہ جس کی آنکھوں کے اک اشارے سے
دل ویراں قرار پا جائے
زندگی کی بہار پا جائے
سوال سارے میں لے کے پہنچا تو
سوال سارے بکھر بکھر سے گئے
اس نے دیکھا جو پیار سے مجھ شکو
جواب سارے میں پا گیا جیسے
فریب سارے میں کھا گیا جیسے