بات سے بات کی گہرائی، چلی جاتی ہے
جھوٹ آجائے تو، سچائی چلی جاتی ہے
رات بھر جاگتے رہنے کا عمل ٹھیک نہیں
چاند کے عشق میں، بینائی چلی جاتی ہے
میں نے اس شہر کو دیکھا بھی نہیں جی بھر کے
اور طبیعت ہے کہ، گھبرائی چلی جاتی ہے
کُچھ دنوں کے لئے منظر سے اگر ہٹ جائو
زندگی بھر کی، شناسائی چلی جاتی ہے
پیار کے نغمے ہوائوں میں سُنے جاتے ہیں
دف بجاتے ہوئے، رُسوائی چلی جاتی ہے
چھپاک سے گِرتی ہے کوئی چیز ٹھہرے پانی میں
دُور تک پھٹی ہوئی، کائی چلی جاتی ہے
کرتی ہے مجھے، میرے لہُو کی خوشبُو
زخم سب کھول کے، ہریالی چلی جاتی ہے
درودیوار پر چہرے سے اُبھر آتے ہیں
جسم بنتی ہوئی، تنہائی چلی جاتی ہے