جو نصیبوں کا ہے وہ پا کے چلے جائیں گے
دھوکہ اپنوں سے مگر کھا کے چلے جائیں گے
کام نیکی کا کوئی ہو تو بہت اچھا ہو
ورنہ حیواں کی طرح آ کے چلے جائیں گے
ہم کو زنداں کی مشقّت سے ڈراتے کیا ہو
جو خطا اس کی ہے، اپنا کے چلے جائیں گے
تو نے دیکھا نہ کبھی ہو گا قیامت کا ستم
ایک دن چپکے سے ہم ڈھا کے چلے جائیں گے
کیا ہؤا تو نے اگر دل کو دلاسہ نہ دیا
تیری یادوں سے ہی بہلا کے چلے جائیں گے
اب تو جیون بھی کسی زہر کی پُڑیا سا لگے
روئے جائیں گے اور پھاکے چلے جائیں گے
آج حسرتؔ کو نوازا ہے حکومت نے میاں
دور تک سلسلے افوا کے چلے جائیں گے