وقت اِک پَل کو جو رُک جائے تو احساں اس کا
چند یادیں میرے دل میں سے گُزرنا چاہیں
دعوائہ عِشق میں تم حد سے نِکل جاتے ہو
وقت پڑتا ہے تو کیوں رنگ بدل جاتے ہو
وہ لمس کی حِدّت ہے نہ جذبے کی وہ شِدّت
اے گُل، توُ حریفِ لبِ گُل رنگ نہیں ہے
وفا کی دُھوپ میں جب جل بُجھا وجوُد مرا
مَیں رخشِ ریگِ رواں پر سوار ہو کے چلا
ختم گر ہو نہ سکی عُذر تراشی تیری
اِک صَدی تک تُجھے جینے کی دُعا دے دُوں گا