سفر دھوپ میں اتنے کئے ہیں
سائے کے نام پہ چونک پڑے ہیں
ورق تا ورق‘ کتاب در کتاب
روشن انہی یادوں کے دئیے ہیں
پودے الم کے جو اگ گئے تھے
وہ اب تناور درخت ہوئے ہیں
ناطہ ہی ٹوٹا ہوا ہے جن سے
وہ ہمیں اکثر پیارے لگے ہیں
گرداب میں کوئی پھنسا ہے تو رہے
سفینے کسی کے کنارے لگے ہیں
آنگن سے گزرتی دھوپ کو دیکھا تو
اپنی کشاکش زندگی پہ ہنسے ہیں
ناصر نے جو چوٹ سہی تھی
زخم اس کے ہنوز ہرے ہیں