جیسے پیغام لاتے کبوتر کے پر کاٹ ڈالے کوئی
ڈاک بابو کوئی جیسے قیدی ہُوا
ڈاک خانے کے در جیسے سربہ مُہر
ہاتھ جکڑے گئے اور باندھی گئیں
ہندسے اور حرف پر تیرتی انگلیاں
نامہ بر روشنی
اور سندیسے کا اعلانچی ساز چُپ
حکمِ حاکم ہے غرایا اس زور سے
ہوگئے محوِپرواز الفاظ چُپ
رقص کرتی فضاؤں میں آواز چُپ
ربط خاموش، چاہت کے انداز چُپ
رازِدل کیا بتائیں کہ ہم راز چُپ
تیزرو وقت کو یہ بتادے کوئی
ہم کو آتا ہے ماضی میں جانے کا فن
کب کے بیتے ہوئے دور لانے کا فن