وہ لوٹ کر نہ آیا ﺀم جاں سے گزر گئے
ہر ایک وعدے سے اپنے وہ ایسے مکر گئے
شرمندہ ہوئے حالات کی سنگینی دیکھ کر
برسوں کے رشتے پل میں کیسے بکھر گئے
جس راستے پہ ہم سے وہ بچھڑے تھے ایکبار
بھولے سے ہم تو آج پھر وہاں سے گزر گئے
کچھ حالات کی وجہ سے تھیں دوریاں بڑھیں
اور کچھ انکی بیوفائی تھی کہ چپکے سے مر گئے