چپکے چپکے رات آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے
باہزاراں اضطراب و صد ہزاراں اشتیاق
تجھ سے وہ پہلے پہل کا دل لگانا یاد ہے
تجھ سے کچھ ملتے ہی وہ بے باک ہو جانا میرا
اور تیرا وہ دانتوں میں انگلی دبانا یاد ہے
کھنیچ لینا وہ میرا پردہ کا کونہ دفعتہ
اور ڈوپٹے سے تیرا وہ منہ چھپانا یاد ہے
آ گیا اگر وصل کی شب بھی کہیں ذکر فراق
وہ تیرا رو رو کر مجھ کو رولانا یاد ہے
دوپہر کی دھوپ میں میرے بلانے کے لئے
وہ تیرا کوٹھے پر ننگے پاؤں آنا یاد ہے