چھیڑو نہ ہمیں تم اب لوگو ہم لوگ ستائے بیٹھے ہیں
کیا ڈھونڈتے ہو اس راکھ میں اب ہم دل کو جلائے بیٹھے ہیں
ہر چیز بکاؤ مال یہاں یہ مہر و وفا یہ حسن و جمال
اس دنیا میں سب لوگ یہاں دوکان سجائے بیٹھے ہیں
زخم تو دیتی ہے دنیا مرہم بھی دے تو بات بنے
اب کون یہاں مرہم رکھ دے ہم زخم تو کھائے بیٹھے ہیں
بدنام سہی ہم بد تو نہیں پھر بھی نہ کہو ہم کو اچھا
ہم کو مانو ہم تو خود پر الزام لگائے بیٹھے ہیں
وہ تو نہیں ملتا ہم کو ظالم ہے بڑا بیگانہ سا
جس کا لبوں پر ہر لمحہ ہم ذکر سجائے بیٹھے ہیں
نہ ہے کوئی اپنا گھر قیصر نہ کوئی ٹھکانہ ہے اپنا
پھر بھی سہانے مستقبل کے ہم خواب سجائے بیٹھے ہیں