جبر دل پہ جو سہا ھے تو پھر یہ قیامت کیسی
تیری آنکھوں میں یہ آج احساس ندامت کیسی
عشق سمندر میں میرے دل نے ڈبویا خود کو
بجھ گئی پیاس تو پھر آج یہ بغاوت کیسی
دل کے دروازے پے کئی خوابوں کو بانٹا ھم نے
خالی دامن میں ہیں کئی چھید تو یہ سخاوت کیسی
آنا ھے تو چلے آؤ میرے جذبے پے بھروسہ کر کے
ملنے کو جب راہیں کھلی ہیں تو پھر یہ رکاوٹ کیسی
رات کے سپنوں نے تیری آنکھوں کو بہکایا ھے
چہرے پے غم کی ویرانی میں یہ سجاوٹ کیسی