ڈر لگتا ہے اس کو بھی شہنائی سے
پیار کیا تھا اس نے بھی ہرجائی سے
اس کے بھی اب دل میں درد سا اٹھتا ہے
وحشت ہے اب اس کو بھی تنہائی سے
ڈوھونڈ رہا ہے جھوٹی دنیا میں خود کو
پیار بڑا تھا اس کو بھی سچائی سے
عشق سمندر ہے گہرا وہ کہتا تھا
لوٹ کے آنا مشکل ہے گہرائی سے
ایک ہنر میں یکتا ہے وہ مجھ سے بھی
باتیں جھوٹی کرتا ہے دانائی سے
مجرم ہم وہ منصف ہے کیا بات کریں
خاموشی اب بہتر ہے گویائی سے
عشق سدید فقط بدنام نہیں کرتا
شہرت ہم کو بڑھ کے ملی رسوائی سے