ڈر ہے کہ مجھے رنج و الم چھوڑ نہ جائیں
ویران حویلی میں یہ غم چھوڑ نہ جائیں
تُو نےتو کیا چھوڑ کے غیروں کے حوالے
کر فکر کہ اب تجھ کو بھی ہم چھوڑ نہ جائیں
اے جانِ تمنا! مرے گاؤں میں اس بار
موسم یہ شقاوت کے ، قدم چھوڑ نہ جائیں
اب کھول دے کھڑکی کہ گھٹن بڑھنے لگی ہے
پنچھی یہاں پنجرے میں ہی دم چھوڑ نہ جائیں
مشکل سے خیالوں کا بسایا ہے جزیرہ
اب ڈر ہے مجھے اہل قلم چھوڑ نہ جائیں
دریا یہ گزرتے ہوئے آنکھوں سے اے وشمہ
جاتے ہوئے ہر سانس کو نم چھوڑ نہ جائیں