ڈوب رہی ہیں سانسیں مگر یہ غم باقی ہے
آنے کا کسی شخص کا ابھی امکان باقی ہے
مدت ہوئی اک شخص کو بچھڑے لیکن
آج تک میرے دل پے اک نشان باقی ہے
وہ سائباں چھن گیا تو کوئی غم نہیں
ابھی تو میرے سر پے آسماں باقی ہے
کشتی ذرا کنارے کے قریب ہی رکھنا
بپھری ہوئی لہروں میں ابھی طوفان باقی ہے
غموں سے کہہ دو کہ ابھی نہ رختِ سفر باندھیں
کہ ابھی تو میرے جسم میں کچھ اور جاں باقی ہے
جا چکے ہیں سب لوگ خاموش پڑی ہے بستی
مگر کسی آس پے اک مکین مکاں باقی ہے