اک روز
خاموشی تھی
اندھیرا تھا
روشن دماغ میں
تاریکی تھی
ہاں اک روز
اس چاند کی چاندنی
گھایل تھی
جسے ہر سوں روشن کرنا تھا
اگلے روز
ڈپریشن نے مجبوری سے بولا
وہاں تم بھی تھی
میں بھی تھا
اسی روز
اس بات پہ بحث اٹھی
مجھ سے تم تھی
یا تم سے میں تھا
ہر روز
تم تھی میں تھا
کہ چکر میں تو
گزر پڑا
پھر کسی روز
تاریک دماغ
چیخ چیخ کے
مخاطب ہوا
" مگر اس روز ( مستقبل ) کا کیا بننا ۔؟
جس روز کا
سوچ سوچ کے
میں تاریک بنا
مجبوری نے روشنی چھینی
پھر ڈپریشن مجھ پہ قابض ہوا
اس روز کے اور میرے
یہ قاتل ہیں
یہ وصیت دیئے
وہ دنیا سے رخصت ہوا
تو یہ اس روز
کی کہانی ہے
جس روز
ڈپریشن اور پریشانی
قاتل بنے
اور وہ ( دماغ ) مقتول بنا