زندگی میں بنتا ہے روز، اک افسانہ نیا
بھول کر پرانا، لوگ گاتے ہیں ترانہ نیا
بر آتی رہے تو رہتے ہیں وابستہ لوگ
ڈھونڈ لیتے ہیں ورنہ اک آستانہ نیا
کہاں ملیں گی اب وہ چاہتیں اور محبتیں
کھو گیا ہے وہ زمانہ ، آگیا اک زمانہ نیا
وعدہ ملنے کا کرکے بھی ملتے نہیں ہیں
ڈھونڈ لیتے ہیں روز اک بہانہ نیا
کون کس طرح ناپے وفا اور محبت کو
ہر اک کا الگ الگ ہے اک پیمانہ نیا
یہ پرندے ہیں جو لوٹ آتے ہیں ورنہ
انساں تو بنا لیتے ہیں روز اک آشیانہ نیا
مثلِ شمع بھی ہے کوئی اس جہاں میں انساں
مر جائے جس پہ تو آجاتا ہے اک پروانہ نیا
پی کر بھی جہاں سے، سدا ہوش رہے باقی
تلاش ایسا کر جہاں میں کاشف اک میخانہ نیا