ڈھونڈ ہی لیتا ہے مجھے نت نئے بہانے سے یارو
غم ہو گیا ہے واقف میرے ہر ٹھکانے سے یارو
چلا جاتا ہے ھمیشہ کچھ نئے درد دے کر
باز وہ کبھی نہیں آتا مجھے آزماتے سے یارو
کچھ کہیں تو رسوائی ہے چپ رہیں تو بے وفائی ہے
میں نکل ہی نہیں پاتا ان تانے بانے سے یارو
نظر اب ہم پے اٹھتی ہی نہیں ان کی محفل میں کبھی
ہم قدر ہی گنوا بیٹھے ہیں روز آنے جانے سے یارو
یہاں ان گنت درد ہیں یہ ایک دو کی تو بات نہیں
یہ دل کب سمبھلتا ہے اک آدھ غم بھلا تے سے یارو
ماضی کے اس زخم کو اور مت کریدو کے تم کو
غم کے سوا اور کیا ملے گا اس غریب خانے سے یارو
بتاؤ کیا پایا کیا کھویا زندگی سے تم نے اے تنویر
رہے خود سے بھی اجنبی اور رہے اجنبی زمانے سے یارو