کئی تجربے ہوئے ہیں زندگی میں
کوئی ساتھ ہوتا نہیں بے بسی میں
مری مخلصی نے ہرایا ہے مجھ کو
کبھی دشمنی میں کبھی دوستی میں
اندھیروں میں ساتھی کوئی بھی نہیں ہے
چلے آئے جگنو بھی اس روشنی میں
بدل جاتے ہیں لوگ پل بھی میں سارے
دغائیں بڑی ہیں یہاں آدمی میں
مجھے جان کاری نہیں تھی جہاں ک
میں لٹتا رہا اپنی ہی سادگی میں
دلوں میں کدورت بھی اتنی بھری ہے
کوئی خوش نہیں ہے کسی کی خوشی میں
اے گلشاد سیکھا بہت ہے جہاں سے
کوئی ساتھ دیتا نہیں ہے تیرگی میں