کئی طرح کے ستم ایجاد کر لینا
دل ویراں کو برباد کر لینا
پلکوں سے موتیوں کو چن کر
دل اپنا گہرا سمندر کر لینا
پسند تھی تمہٰیں خاموشیاں بہت
اب تنہائیوں سے نبھا کر لینا
پیکے لبوں پہ مسکان سجا کر
رنگ نئے ذندگی میں بھر لینا
ہو اپنے بیان میں کتنے سچے
ذرا ہاتھ دل پہ رکھ لینا
ہمیں یاد ہے آداب محبت کے
جھکی نگاہوں سے سلام کر لینا
چھوڑدے عائش محبت کو
ڈنھگ کا کوئ کام کر لینا