کارپوریٹ کلچر کا مردِ مومن
Poet: M Usman Jamaie By: M Usman Jamaie, karachiجہد کے دائرے میں پھنسا آدمی
 سخت گرمی میں ٹائی لگا آدمی
 کمپنی میں تراشا گیا آدمی
 جبر میں یہ گلے تک دھنسا آدمی
 اپنے کلچر پہ شرمندہ سا آدمی
 سو ہے ٹائی کے پیچھے چُھپا آدمی
 بے شکن، استری ہوچکا آدمی
 سرنگوں، لیکن اکڑا ہوا آدمی
 خود کو چھونے سے بھی رہ گیا آدمی
 اپنی ہی جان کو نارسا آدمی
 سر نفی میں ہلا نہ سکا آدمی
 کالروں میں یہ جکڑا ہوا آدمی
 شرٹ کے سب بٹن آزماتا ہے یہ
 اپنے سینے میں گُھٹ سا گیا آدمی
 خود کو آزاد پانے کی خواہش لیے
 طوق سی ”ناٹ“ سے جُوجھتا آدمی
 
 اس مصیبت کے مارے پہ کچھ ہو کرم
 آئیے، اس کی ٹائی میں ہم جھول دیں 
 کم سے کم اس کا کالر بٹن کھول دیں 
  
More Life Poetry
ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
 
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
اسلم







 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 