جہد کے دائرے میں پھنسا آدمی
سخت گرمی میں ٹائی لگا آدمی
کمپنی میں تراشا گیا آدمی
جبر میں یہ گلے تک دھنسا آدمی
اپنے کلچر پہ شرمندہ سا آدمی
سو ہے ٹائی کے پیچھے چُھپا آدمی
بے شکن، استری ہوچکا آدمی
سرنگوں، لیکن اکڑا ہوا آدمی
خود کو چھونے سے بھی رہ گیا آدمی
اپنی ہی جان کو نارسا آدمی
سر نفی میں ہلا نہ سکا آدمی
کالروں میں یہ جکڑا ہوا آدمی
شرٹ کے سب بٹن آزماتا ہے یہ
اپنے سینے میں گُھٹ سا گیا آدمی
خود کو آزاد پانے کی خواہش لیے
طوق سی ”ناٹ“ سے جُوجھتا آدمی
اس مصیبت کے مارے پہ کچھ ہو کرم
آئیے، اس کی ٹائی میں ہم جھول دیں
کم سے کم اس کا کالر بٹن کھول دیں