دِل کا دروازہ کھلا چھوڑا کہ جب تو آئے
صحن گلشن سے ترے ساتھ ہی خوشبو آئے
جام دو جام سے ملتا ہے کہاں دل کو سکوں
تشنہ لب پیاس بجھانے لب جو آئے
گھر جلا نا ہے تو پھر ہم سے تکلف کیسا
آگ دامن میں اُٹھائے ہوئے جگنو آئے
مَیں ہوں معبد میں کھڑا گنبد اِفلاک تلے
جب تیرا نام پکاروں تو صدا آہو آئے
اسی اُمید پہ شفیق سوئے جنگل نکلا
کاش وہ جانِ غزل صورت آہو آئے