لہروں کی طرح یادیں بکھری ہیں کاغذوں پر
یادوں کا اک سمندر پھیلا ہے کاغذوں پر
ہم بھول چکے جن کو برسوں کے بعد انکی
یادوں کو پھر سے پایا نمناک کاغذوں پر
کاغذ قلم اٹھا کر انہیں رازداں بنایا
لکھ ڈالی داستان غمناک کاغذوں پر
شہنائیوں کے قصے تنہائیوں کی باتیں
بکھرا ہے زندگی کا ہر راز کاغذوں پر
جب ہجر کی شدت نے ہم کو بہت ستایا
دل بھی اترآیا ہے بے باک کاغذوں پر
جو دیکھا جو محسوس کیا ہم نے لکھ دیا
کیا کیا نہیں دکھایا بے لاگ کاغذوں پر
عظمٰی ہم اپنے آپ میں روپوش ہو چکے
پھر اپنا عکس پایا ان کورے کاغذوں پر