دوستوں کا مل کے کالج جانا
وہ راستے میں دبی سی ہنسی
اور بات بات پہ مسکران
ہر غم سے نا آشن
وہ دن بھر کا حساب لگان
کہ آج اس سہانےدل لبھانے
والے موسم میں
کونسا پیریڈ فری ہو گ
اور کیمسٹری کے پیریڈ سے
جان چھڑانا
پھر لیبارٹری میں ہیپی نیوائیر کے
کارڈز بنا کے چپکے سے ایکدوسرے
کے بیگز میں رکھن
وہ دھند کے بادلوں میں
بارش کی پھوار میں
فرینڈ شپ روڈ پہ بار بار چکر لگان
اپنے خوابوں کی تعبیر کے لئے
ہاتھوں پہ ہاتھ رکھ کے زندگی میں
آگے بڑھنے کا عہدو پیمان کرن
وہ کالج کینٹین پہ جا سموسےاملی
کی چٹنی کا لطف اٹھان
وہ دوستوں کا مجھےکتابی کیٹرا
کہ کے چڑانا
میری کتابوں کا چھپان
پھر روٹھنمنان
معصوم سی شرارتوں پہ
خوب قہقہے لگان
وہ سنبل کے درخت کے نیچے
دامن پھیلائے پھولوں کے گرنے
کا انتظار کرن
وہ تصنع سے پاک محبتوں کا ایک
دوسرے پہ نچھاور کرنا
وہ اب تمام لمحے خواب ہوئے
آنکھوں سے بھی آنسو آزاد ہوئے
نجانے کتنے دسمبر بیت جائیں گے
مگر
کالج میں جو گزرا دسمبر۔۔۔۔
کبھی لوٹ کے نہ آئے گ
کبھی لوٹ کے نہ آئے گ