کالج کا دالان نہیں ہے پیارے ظالم دنیا ہے
Poet: آفتاب شکیل By: ساجد ہمید, Islamabadکالج کا دالان نہیں ہے پیارے ظالم دنیا ہے
 اور یہاں سچ بولنے والا سچ میں سب سے جھوٹا ہے
 
 میں تیرے دیدار کی خاطر آ جاتا ہوں خوابوں تک 
 ورنہ اس لذت کے علاوہ نیندوں میں کیا رکھا ہے 
 
 چمکیلے کپڑوں سے پرکھا مت کر انسانی لہجے 
 گہرے کنویں میں اجلا پانی کھرا بھی ہو سکتا ہے 
 
 وعدہ کر اے دل کش لڑکی وصل سے لے کر ہجر تلک 
 رشتہ چاہے جیسا بھی ہو خرچہ اپنا اپنا ہے 
 
 میں تیرے شکوے بھی جاناں بالکل ایسے سنتا ہوں 
 جیسے بچپن میں کوئی بچہ غور سے قصے سنتا ہے 
 
 میرے خفا ہونے پر اس کا وہ الٹا فلمی جملہ 
 پیار سے ڈر نہیں لگتا صاحب تھپڑ سے ڈر لگتا ہے 
 
 جب لوگو نے سودائی کی لاش اتاری تب بولے 
 یہ تو زندہ مر ہی چکا تھا پنکھے سے کیوں لٹکا ہے 
 
 میں اس ڈر سے کافی پینے تیرے ساتھ نہیں جاتا 
 تجھ کو تو کافی کے بہانے مجھ سے لڑنا ہوتا ہے 
 
 مجھ کو بونے تھے دل میں اور کسی کے غم آفیؔ 
 لیکن دل کی سرخی زمیں پر اب تک اس کا قبضہ ہے







 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 