روئیں گی میری آنکھیں بن کر آسماں کب تلک؟
چلے گا آنسووں کا یہ کارواں کب تلک؟
ہر درد کے بدلے دعا دوں گا، فقط اتنا بتا دے
جائے گی میری محنت یونہی رائیگاں کب تلک؟
سنا ہے محبت کرنے والوں کو سکوں نصیب نہیں ہوتا
پھر بھلا میں مانگوں گا رب سے خوشیاں کب تلک؟
ظلم حد سے بڑھ گیا ہے، اب بتانا بہتر ہو گا
اور اُجڑے گا میرا یہ آشیاں کب تلک؟
تیری خاموشی میرے دل میں کئی چھید کرتی ہے “فیروز“
سُولی پہ لٹکی رہے گی میری جاں کب تلک؟