کب زندگی سے یادوں کی صفائی ہو گی
کب ختم یہ سرد و خاموش لڑائی ہو گی
کس روز قفسِ ہجر سے رہائی ہو گی
کب شبِ وصل اپنی ہو گی، کب شبِ ہجراں پرائی ہوگی
کہا: آج مل بحی گئے ہم تم تو سنو دیوانے
کل سے پھر ہمارے بیچ جدائی ہو گی
اسی امید پہ انتظارِ نامہء یار ہے مجھے
دل کی بات میرے قاصد نے ضرور بتائی ہو گی
میں زاہد ہوں، واوعظ ہوں، رند بھی ہوں
ہمدم یہ بات تم نے ضرور سنی سنائی ہوگی
میرے اشعاروں میں ہے ارمانوں کا ماتم
انہیں پڑھ کر کسے نیند آئی ہو گی
ایسے ہی نہیں آگئی مزاجِ یار میں تندہی
رقیبوں نے بھی کچھ نہ کچھ آگ لگائی ہو گی