کب یہ دلِ ناتواں تیرے غم کی دہائی نہیں دیتا
یہ اور بات ہے کہ تجھے کچھ بھی سنائی نہیں دیتا
مانا کہ میرا طرزِ بیاں ترجمانی کے نہیں قابل
میراگریہ ء مسلسل بھی تجھے دکھائی نہیں دیتا
اندھیرے ہیں میرے گرد کہ سیاہی ہے مقدر کی
باوجودِ کوشش ہاتھ کو ہاتھ بھی سجھائی نہیں دیتا
دل ِ مضطرب کا سکوں ہی تو مانگا ہے فقط تجھ سے
میں نے کب کہا تجھ سے کہ مجھے خدائی نہیں دیتا
بے جرم تعزیر سنا کر میرے منصف مجھ سے
پھر یہ گلہ بھی رکھنا ،کہ میں صفائی نہیں دیتا
عجیب دوراہے پہ میری زیست کھڑی ہے
تنہا بھی رکھتا ہے وہ مجھے مگرتنہائی نہیں دیتا
خوب رزم گا ہ ہے عِجزو کِبر کی یہ دنیا تیری
اچھائی کابدلہ کوئی رضا ، اچھائی نہیں دیتا