کبھی اپنی غلطی کاٹے گی کبھی وہم کھائیں گے
وہ لوگ جیئیں گے بھی کیا بس مرجائیں گے
سنا ہے ان کو کوئی اس ارضی پہ گھر بھی نہیں
نگر نگر یہ مسافر سوچو آخر کہاں جائیں گے
آتنگ میں کود کر بھی اس نے نیائے تیرگی نہ جانی
پھر تو ضرور گہرے سمندر کی گھوٹ بن جائیں گے
بد اندیشوں کو حسد کہ اوروں کا حصہ بھی نظر کریں
طبیعتوں کے تیاگی آخر اور کیا چاہیں گے
جنون آتشی کو سلجھاتا رہے تو اور کیا چاہیے
کھلا رہے گا جہنم کا دروازہ جب بھی جائیں گے