(پچھلی پوسٹ کی گئی نظم کے خیال کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک بند لکھنے کی بھی کوشش کی تھی، پیش ِ خدمت ہے اور اصلاح کا طالب ہے)
کہیں بادل بہاتا ہے، کہیں دریا میں جاری ہے
کہیں سب کچھ بہا دے یہ، کہیں پانے کی خواری ہے
کہیں یہ بہت ہی میٹھا، کہیں نکلے تو کھاری ہے
کہیں قدرت اسے بخشے، کہیں بک کر بازاری ہے
کسی کی آنکھ میں گر ہو تو لمبی پھر کہانی ہے
خبر رکھہ لو تو آنسوں ہے وگرنہ صرف پانی ہے