اداس شامیں ، اجاڑ رستے کبھی بلائیں تو لوٹ آنا
کسی کی آنکھ میں رتجگوں کے عذاب آئیں تو لوٹ آنا
ابھی نئی وادیوں نئے منظروں میں رہ لو مگر میری جاں
یہ سارے ایک اک کر کے جب تم کو چھوڑ جائیں تو لوٹ آنا
جو شام ڈھلتے ہی اپنی اپنی پناہ گاہوں کو لوٹتے ہیں
اگر وہ پنچھی کبھی کوئی داستاں سنائیں تو لوٹ آنا
نئے زمانوں کا کرب اوڑھے ضعیف لمحے نڈھال یادیں
تمہارے خوابوں کے بند کمرے میں لوٹ آئیں تو لوٹ آنا
میں روز یوں ہی ہوا پر لکھ لکھ کے اس کی جانب یہ بھیجتا ہوں
کہ اچھے موسم اگر پہاڑوں پہ مسکرائیں تو لوٹ آنا
اگر اندھیروں میں چھوڑ کر تم کو بھول جائیں تمہارے ساتھی
اور اپنی خاطر ہی اپنے اپنے دیئے جلائیں تو لوٹ آنا
میری وہ باتیں جن پہ تو ہنستا تھا کھل کھلا کر
بچھڑنے والے میری وہ باتیں کبھی رلائیں تو لوٹ آنا