اداس ہوگی بہت اب نہ مسکرانے کی
یہ زندگی نہ کبھی پھر سے آزمانے کی
میں سادہ دل ہوں مگر سادگی سے کیا پایا
نہ راس پہلے یہ آئی نہ راس آنے کی
سہوں گی کیسے بھلا زخم بے وفائی کا
نہ داغ دل سے مٹے گا کبھی مٹانے کی
نجانے کتنے پرندوں کے گھونسلے بکھرے
بس ایک گھر کے لئے تھا شجر گرانے کی
ہے آندھیوں کی تو فطرت تباہ کر دینا
بجھے گا دیپ ہوا مین اگر جلانے کی
مرے مزاج کی دنیا نہیں ہے یہ دنیا
مجھے تو چاہئے دنیا سے دور جانے کی
ہے انتظار مجھے تو اب تو موت کا وشمہ
کبھی تو آکے غموں سے مجھے چھڑانے کی