کبھی جب وہ ہمارے دِل کا کہنا مان لیتے ہیں
جنم دِل میں ہزاروں پیار کے طوُفان لیتے ہیں
سلیقہ ہم کو آیا ہی نہیں اِنساں پرکھنے کا
وگرنہ ریت سے بھی لوگ سونا چھان لیتے ہیں
ہماری سادگی کو خود فریبی مت سمجھ لیجے
نظر سے ہم تو نیت آپ کی پہچان لیتے ہیں
فریبِ زندگی کھاتے ہوۓ دیکھا سدا اُن کو
لفافے سے جو اکثر خط کا مضموں جان لیتے ہیں
دبے پاؤں اگرچہ توُ گذرتا ہے سدا دِل سے
ترِے قدموں کی آہٹ ہم مگر پہچان لیتے ہیں
اکیلا چھوڑ جانا راستے میں جِن کی عادت ہو
ہمیشہ ساتھ دینے کا وہی پیمان لیتے ہیں
ہمیں جینا ہے عذراؔ اپنی ہمت کے بھروسے پر
نہ ہم اپنوں نہ غیروں کا کبھی احسان لیتے ہیں