کبھی ظلمتوں میں سفر کیا کبھی روشنی میں ٹھہر گئے
Poet: سدرہ سبحان By: Sidra Subhan, Kohatکبھی ظلمتوں میں سفر کیا کبھی روشنی میں ٹھہر گئے
غم دوست تری تلاش میں کبھی جی اٹھے کبھی مر گئے
اے ہجوم شہر مسافراں، تجھے کیا خبر میری داستاں
کہ جو لوگ میرے قدم چلے وہ مثال گرد سفر گئے
وہ جو لوگ میرے قریب تھے انہیں فاصلوں نے بدل دیا
جنہیں دوریوں کا گمان تھا میری چشم خوش میں اتر گئے
کبھی یوں ہوا ترے درد نے مجھے دشت جاں سے نجات دی
کبھی یوں ہوا کہ تیرے کرم مجھے ملنے آئے تو ڈر گئے
کبھی دیکھنا میرے ہمسفر جو دھنک ہماری نظر میں ہے
یہ تمہارے نام کے خواب تھے جو برنگ خواب سحر گئے
غم زندگی، غم بندگی تجھے کیا خبر غم خواجگی
جنہیں دست ناز پہ ناز تھا وہی پروری سے مکر گئے
تیرے حوصلے کی زمین پر ابھی کٹ رہی ہے نشاط غم
دل بےخبر ترے شوق میں مرے ہاتھ زخموں سے بھر گئے
انہیں کوئی مشت یقین دے جو اتر کہ زینہ شام سے
جو رکے تو صبح امید پر جو چلے تو جاں سے گزر گئے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے






