پڑھتے ہیں اس کا چہرہ لیکن کبھی کبھی
کرتے ہیں اس کا ذکر بھی لیکن کبھی کبھی
وہ جو حیات مختصر میں ہم سفر رہا ہے
کرتے ہیں اس کو رہنما لیکن کبھی کبھی
وہ بھی کبھی کبھار ہمیں سوچتے ہوں گے
آتے ہیں جو خیال میں چہرے کبھی کبھی
برسوں کے بعد ان کو دیکھا تو یاد آیا ہے
ملتے رہے ہیں یہ بھی ہم سے کبھی کبھی
پہلے کی طرح نہ سہی لیکن میرے ہمراز
دل کی کہی کہا کرو ہم سے کبھی کبھی
آخر کو مراسم ہیں اور ہیں بھی نہایت
چاہتے ہیں اسلئے ملو ہم سے کبھی کبھی
عظمٰی ہمارے شہر میں تم بھی تو کبھی آؤ
تکتے ہیں تیرا راستہ ہم بھی کبھی کبھی