کبھی کبھی آنسوؤں نے چُھپ کر کیا ہے کیفِ شراب پیدا
کبھی کبھی شام غم نے بخشی ہے زندگی کو عجیب مستی
آنکھ جب اشکبار ہوتی ہے
لالہ زاروں میں آگ لگتی ہے
چاند تاروں میں آگ لگتی ہے
ماہ پاروں میں آگ لگتی ہے
ہوش کو جام کی ضرورت ہے
عقل کو دام کی ضرورت ہے
وہاں اب تک سُنا ہے سونے والے چونک اُٹھتے ہیں
صدا دیتے ہوئے جن راستوں سے ہم گزر آئے
یہ مَسندیں یہ مقابری جھولیوں کا عروج
یہ ظلمتوں کا اثاثہ تمام بدلے گا
معرفت کے نقیب ہوتے ہیں
زندگی کے خطیب ہوتے ہیں
حادثے شوخ اداؤں کی طرح ملتے ہیں
بُت بھی اب ہم کو خداؤں کی طرح ملتے ہیں
گیت اس عہدِ بے تکلّف میں
بربط و چنگ و نے کو ترسے ہیں
ساغر کہاں مجال کہ آنکھیں ملائیں ہم
رُسوائیاں ہیں گھات میں مدّت گزرگئی
ساقیا تیرے بادہ خانے میں
نام ساغر ہے مَے کو ترسے ہیں
اس منزلِ حیات سے گزرے ہیں اِس طرح
جیسے کوئی غُبار کسی کارواں کے ساتھ
چند غزلوں کے رُوپ میں ساغر
پیش ہے زندگی کا شیرازہ
میکدہ ان کا ٹھکانا، نہ حَرم ہے ڈیرہ
بادہ کش اُڑتی ہواؤں کی طرح ملتے ہیں