رہی یہ حسرتِ غنچہ چٹک گیا ہوتا
بہار جانے کو آئی مہک گیا ہوتا
کبھی کبھی کا تغافل بچا گیا ورنہ
نہ جانے دل مرا کب کا بہک گیا ہوتا
گداز پھولوں سے گھائل ہوا یہ شاخِ بدن
میں ٹوٹتا نہ کبھی گر لچک گیا ہوتا
مری طرح مرا آنسو بھی با وفا نکلا
ترے مزاج کا ہوتا ٹپک گیا ہوتا
اگر نہ ہوتا مجھے تیری آبرو کا خیال
مرے بھی صبر کا پیالہ چھلک گیا ہوتا
خدا کا شکر ہے ملتی نہیں نیت پہ سزا
وگرنہ ہر کوئی پھانسی لٹک گیا ہوتا