بہت ہی مدت کہ بعد کل جب کتاب ماضی کو میں نے کھولا
بہت سے چہرے نظر میں اترے بہت سے ناموں پہ دل پسیجا
اک ایسا صفحہ بھی اس میں آیا لکھا ہوا تھا جو آنسؤں سے
کہ جس کا عنوان ہمسفر تھا
پھر اس سے آگے میں کچھ پڑھ نہ پایا
کتاب ماضی کو بند کرکے اسی کی یادوں میں کھو گیا میں
اگر وہ ملتا تو کیسا ہوتا انہی خیالوں میں سو گیا میں