کتنی الجھن میں ہیں پرائے لوگ
جانے کس کس جہاں سے آئے لوگ
حسرتوں کا نگار خانہ ہے
دکھ کی بستی میں مسکرائے لوگ
جب اندھیروں نے دی صدائے دل
دیئے پلکوں کے لے کے آئے لوگ
کیسے تدفین کر رہا ہے یہاں
جس نے ہاتھوں سے ہیں جلائے لوگ
غم کا سورج جلا رہا ہے مگر
لے کے پھرتے ہیں اپنے سائے لوگ
میری تحریک میں ہیں جلوہ فگن
ساری دنیا کے یہ ستائے لوگ
میری آنکھوں میں پیار دیکھا تو
وشمہ مشکل میں مسکرائے لوگ