کتنی دوریاں ہیں ھمارے درمیاں
فاصلوں سے فاصلے ہیں یہاں
دور تک سلگتی ارمانوں کی ریت
اس پر بھٹکتا حوصلوں کا کارواں
چھوڑ تو دوں میں تجھے اے زمیں
اگر بدل جائے یہ میرا آسماں
لوگ بستے ہیں جن گھروں میں
مجھے لگتے ہیں وہ خالی مکاں
کیسی ظلمت ہے ہر سو چھائی ہوئی
جیسے ہو مایوسیوں کا شبستاں
میری جفاؤں کے قصے چھوڑ دو
اپنی وفاؤں کا کرو کچھ بیاں
حاصل زیست بس اتنا ہے حبیب
نا کوئی دلبر نہ دلبر کا نشاں