کتنی سنسان یہ حویلی ہے
اس میں رہتی بھی وہ اکیلی ہے
عشق خیرات مانگتا ہوں مگر
خالی اب تک مری ہتھیلی ہے
جانے کس خوب رُو نے چوم لیا
آج مہکی ہوئی چنبیلی ہے
وہ کبھی مجھ سے پیار کرتی تھی
غمزدہ آج وہ سہیلی ہے
دکھ ہمارا وہ جان پائے گا
کرب کی رات جس نے جھیلی ہے
کوئی عابد سمجھ نہیں پایا
زندگی آج بھی پہیلی ہے