کتنے بے لوث و وفادار ہیں دمساز میرے
آج مجھ سے ہی گریزاں ہیں ہمراز میرے
غم ِ ہجراں نے کچھ ایسی مسیحائی کی
سوز ِرواں میں ڈھل گئے سب ساز میرے
جسکے تیور میں ٹھہراؤ نہیں دیکھا میں نے
آج اُسکو بھی بدلے ہوئے لگتے ہیں انداز میرے
پہلے جہاں جنبش ِابرو کی قدر ہوتی تھی
کچھ معانی نہیں رکھتے اب وہاں الفاظ میرے
جا تجھ کو مبارک ہوں تیری اُونچی اُڑانیں
مجھ کو پستی میں ہی رہنے دو جانباز میرے
تم بھی اگر چل دیئے یوں چھوڑ کے مجھ کو
پھر کون اُٹھائے گا رضا تیری طرح ناز میرے