وہ پر خلوص لوگ نجانے کدھر گئے
کتنے حسین پھول کھلے اور بکھر گئے
ان کے ہی دم سے رونقیں تھیں دل کی بزم میں
ویران میرے دل کا نگر دوست کر گئے
پھرتے رہے جہان میں رو ٹی کے واسطے
اپنا رہا نہ کوئی بھی جب اپنے گھر گئے
سوچا نہ تھا بھنور بھی ہمارے ہیں منتظر
دریا میں لے کے شوق کنارہ اتر گئے
غم پا کے میری روح پاکیزہ ہو گئی
نیت نکھر گئی مرے جذبے سنور گئے
کچھ حوصلے تھے پست جو خاموش تھی زباں
کچھ آپ کے سلوک عداوت سے ڈر گئے
مرنا ہی تھا تو موت سے بہتر نہ تھا رفیق
اک بے وفا کے حسن پہ زاہد کیوں مر گئے