کتنا رویا ہوں میں تجھ کو ہنسانے کے لیئے
اب تو آنسو نہ رے آنکھوں سے بہانے کے لیئے
برستی بارش نے جس گھر کو گرایا اب کے
تھا بڑا وقت لگا اُس گھر کو بنانے کے لیئے
وہ جو روٹھا تو سو بار منایا میں نے
آج میں روٹھی ہوں تو آیا نہ منانے کے لیئے
اے میرے پردہ نشیں تجھ کو خبر ہے ساری
میں بڑے کرب سے گزری تھی تجھے پانے کے لیئے
مجھ پہ الزام محبت کا لگانے والو
کتنے باقی ہیں اور ستم ڈھانے کے لیئے
وقتِ رخصت مانگی جو نشانی تو کہا
یاد کافی ہے میری تیرے دل کو جلانے کے لیئے