کروں میں کس سے بھلا جا کے تذکرے تیرے
دکھا رہے ہیں مجھے عکس آئینے تیرے
لکیریں کھینچ رہا ہوں میں کب سے کاغذ پر
ہوئے نہ ٹھیک نہ کبھی مجھ سے زاویے تیرے
تمام عمر رہی اک تلاش ِ لا حاصل
ہمیشہ ساتھ چلے ہیں یہ سلسلے تیرے
سراب تھا یا کوئی عکس تھا مسافت میں
ہوئے نہ کم جو کبھی مجھ سے فاصلے تیرے
میں معتبر ہوں ترے شہر میں کہ میں نے بھی
بہت سنبھال کے رکھے ہیں حادثے تیرے
کوئی خیال تراشا تو لفظ روٹھ گئے
کبھی ملے ہی نہیں مجھ کو قافیے تیرے
ہے مدتوں سے کوئی دشت دل کی وسعت میں
یہاں سے ہو گے گزرتے ہیں قافلے تیرے
ستارے مانگ فلک سے مگر خیال بھی رکھ
کہیں یہ ضبط مٹا دے نہ حوصلے تیرے
بقا سے لے کے فنا تک فنا سے لے کے بقا
مرے وجود سے نکلے ہیں مرحلےتیرے
بچھی ہے یاد تری جس طرف بھی جاؤں عقیل
مرے گمان میں رہتے ہیں فلسفے تیرے