کنارے پہ لہروں سے اٹھکھیلیاں تو ہیں بہت آساں
طوفانوں میں گھری کَشتی نُوح جیسی کم ہیں داستاں
برس جائے تو سوغات تڑپ جائے تو ہے طوفاں
یہ تو سب اس کی جلوہ گری کے ہیں نشاں
سمجھنے والوں کے لیے ہےکن فیکوں عیاں
بند در خرد واسطے بہتا برستا ہوا جہاں
ارض و سماں کے ہر رنگ میں ہے وہ پنہاں
بے رنگ نور مجسم پھر بھی متکبر حضرت انساں
نہ غم نہ دنگ نہ ملال ہے نہ پشیماں
ایک قطرہ ہی سے تو ہے مکمل سب جہاں
بدعت عمل سے جن کی مستی جاوداں
ایسی قوموں کا کبھی کوئی پاتا نہیں نشاں
مٹ گئے محلات جبروت کے دربار شاہاں
آباد ہیں آج بھی کاشانہ فقیہاں
چاہنے سے چاہے جانے کی منزل نہیں آساں
خوشہ تقدیر کے مراد دانہ میں چپھا اک جہاں