کس سے کہیں احوال دل
کس کو سنائیں حال دل
تنہائیوں کا جال ہے
بیگانگی کی چال ہے
اک بیکراں ہجوم ہے
اطوار میں اطراف میں
بیگانگی کا ساتھ ہے
لیکن انہی احباب میں
جو میرے ہیں وہ دور ہیں
جو پاس ہیں میرے نہیں
کوئی تو ہوتا ہم نفس
کوئی تو کہتا ہم نفس
الفاظ کے انبار ہیں
اقوال ہیں افکار ہیں
لیکن کوئی کس سے کہے
کوئی ہم زباں ملتا نہیں
کوئی ہم نوا ملتا نہیں
تم آؤ تو تم سے کہیں
اپنی کہانی ہم نشیں
اپنی زبانی ہم نشیں
تم آؤ تو تم سے کہیں
اپنی کہانی ہم نفس
کوئی راز داں ملتا نہیں
کوئی ہم نوا ملتا نہیں
تنہائیوں کے دشت میں
کوئی سارباں ملتا نہیں
اس اجنبی کو راہ میں
کوئی کارواں ملتا نہیں
کس سے کہیں احوال دل
کس کو سنائیں حال دل